اسلام آباد: پاکستان کے شہری نقل و حمل کے شعبے کو بھیڑ اور ناکافی بنیادی ڈھانچے کے اہم چیلنجوں کا سامنا ہے اور ملک چین سے سیکھ سکتا ہے جس نے موثر شہری نقل و حرکت کے حل کے لیے جدید، پائیدار ٹرانسپورٹیشن سسٹم تیار کیا ہے پاکستان کا شہری ٹرانسپورٹ کا بنیادی ڈھانچہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہے ایک مربوط عوامی نقل و حمل کے نظام کی عدم موجودگی، فرسودہ انفراسٹرکچر اور ٹرانسپورٹ حکام کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان صورتحال کو مزید خراب کرتا ہے.
سی پیک کے سابق پراجیکٹ ڈائریکٹراور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر مشیر ڈاکٹر حسن داود بٹ نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا حل چین جیسے ممالک سے سبق حاصل کرکے پورے نظام کو ٹھیک کرنا ہے جنہوں نے اپنے شہری ٹرانسپورٹ سیکٹر کو کامیابی سے جدید بنایا ہے انہوں نے کہا کہ چین نے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اپنی شہری نقل و حمل کو کامیابی کے ساتھ جدید بنایا ہے، خاص طور پر بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں میں اور نقل و حمل کی جدت طرازی کے ساتھ ساتھ گرین پبلک ٹرانزٹ میں ایک اعلی صنعت کار اور آپریشنل ماہر بن گیا ہے.
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچے میں چین کی سرمایہ کاری پاکستان کو نہ صرف اپنے ٹرانسپورٹ سسٹم کو بہتر بنانے بلکہ شہری ٹرانسپورٹ کی منصوبہ بندی میں چین کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جائے جو ملک کی مخصوص ضروریات اور اہداف سے ہم آہنگ ہوں پاکستان کے نقل و حمل کے اقدامات کی کامیابی کے لیے موثر نفاذ اور گورننس اہم ہوگا.
پرنسپل سائنٹیفک آفس کوآرڈینیٹر، گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر وزارت موسمیاتی تبدیلی عارف گوہیرنے کہا کہ ٹرانسپورٹ ایک شعبے کے طور پر گرین ہاﺅس گیسوں کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا ہوا اخراج ہے جبکہ کل اخراج میں نقل و حمل کے عنصر کی شراکت کا صحیح اعداد و شمار پاکستان کے لیے دستیاب نہیں ہے چونکہ پاکستان کو حالیہ برسوں میں بدترین سموگ کا سامنا ہے اس لیے ٹرانسپورٹ کے شعبے کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے فعال اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے ہوا کے بگڑتے معیار نے، خاص طور پر لاہور جیسے بڑے شہروں میں صحت عامہ اور ماحولیاتی خدشات کو بڑھا دیا ہے.
انہوں نے سنگاپور، بیجنگ، جکارتہ، بوگوٹا، ابوظہبی اور قاہرہ جیسے شہروں کی کامیاب مثالوں کی طرف بھی اشارہ کیاجنہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ملازمتوں کی تخلیق کو فروغ دینا، معاشی ترقی میں معاونت کرنا اور رہائشیوں کے معیارِ زندگی کو بڑھانا ممکن ہے جبکہ ان کے معیار کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان مربوط منصوبہ بندی اور وسائل کے زیادہ موثر استعمال سے بہت فائدہ اٹھا سکتا ہے جس سے نہ صرف معاشی خوشحالی اور سماجی شمولیت کو فروغ ملے گا بلکہ اخراجات میں بھی کمی آئے گی اور پائیدار شہری ترقی میں بھی مدد ملے.